صوبہ پنجاب میں نویں جماعت کے لیے ہونے والے امتحانات کے پرچوں میں سوالات کے ممکنہ جوابات میں صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے نام شامل کیے جانے کی تحقیقات شروع کر دی گئیں ہیں۔
تحقیقات کا حکم صوبائی وزیر تعلیم مجتبیٰ شجاع الرحمان نے دیا ہے۔لاہور بورڈ کی طرف سے اردو کے پرچے میں نویں جماعت کے امیدواروں سے یہ سوال پوچھاگیا کہ ’ہمارا نظام زندگی کس چیز پر قائم ہے، اور اس سوال کے جواب کے لیے طالب علموں کو چار آپشنز دیے گے، ان چار آپشنز میں دین، دنیا، دولت کے علاوہ صدر پاکستان زرداری کا نام بھی شامل تھا۔
اسی طرح ملتان بورڈ کے پرچے میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ’پاکستان کی حفاطت کی ذمے داری کس پر ہے، اور ممکنہ جوابات
میں اللہ تعالٰی، عوام، صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا نام درج تھا۔‘
اُ دھر لاہور بورڈ نے نویں جماعت کے پرچے میں شامل سوال سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور بیان میں یہ وضاحت کی ہے کہ یہ پرچہ ڈیرہ غازی خان بورڈ سے بن کر آیا تھا اور وہیں کے کسی استاد نے یہ پرچہ بنایا ہے۔
پنجاب کے وزیر تعلیم مجتبیٰ شجاع الرحمان نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نویں جماعت کے پرچوں میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے نام شامل کرنے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس مقصد کے لیے ڈیرہ غازی خان تعلیمی بورڈ کے سربراہ کو چھان بین کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔
مجتبیٰ شجاع الرحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوالات کے ممکنہ جوابات میں سیاسی شخصیات کے نام کسی صورت نہیں ہونے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ذمے دار افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے پرچوں میں ممکنہ جوابات میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے نام شامل کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلات فردوس عاشق اعوان نے پرچوں میں سیاسی شخصیات کے نام شامل کرنے کا ذمہ دار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو قرار دیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب پر نقطہ چینی کی اور کہا کہ وہ بچوں کو جس راستے پر لے کر جانا چاہتے ہیں وہ تعلیم کا راستہ نہیں ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے الزام لگایا کہ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ ایک ایسی ذہنیت تیار کی جائے جو کہ ریاست کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہو جائے۔
دریں اثنا پرچے میں صدر اور وزیراعظم کا نام ممکنہ جواب میں شامل کرنے پر طالب علموں کے والدین نے ردعمل میں کہا ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کا نہ تو کسی سیاسی
No comments:
Post a Comment