Saturday, 14 April 2012

استنبول: ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات

یران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے دنیا کے چھ بڑے ممالک ترکی میں جمع ہو رہے ہیں۔

امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی کے حکام ان مذاکرات میں شرکت کریں گے اور انہیں ہے کہ ان مذاکرات سے علاقے میں بڑھتے تناؤ کو روکا جا سکے گا۔
اسی بارے میں


دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ مہینوں کے دوران اس بات کے اشارے دیے تھے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اس پر حملہ کر سکتاہے۔

ایرانی صدر احمدنژاد نے جمعرات کو کہا تھا کہ ان کا مللک اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتا نہیں کرئے گا چاہیے اس پر کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ڈالا جائے۔

ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے ان مذاکرات میں زیادہ پیش رفت متوقع نہیں تاہم امید ہے کہ اس سے بات چیت کا عمل دوبارہ شروع ہو جائے گا اور تناؤ میں کمی آئے گی۔

مغربی ممالک نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں سنجیدگی کے ساتھ شرکت کرئے جبکہ امریکی صدر باراک اوباما نے اسے سفارتکاری کا آخری موقع قرار دیا ہے۔

دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات تعمیراتی ہونے چاہیئیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ ایران کو واضح طور اپنے اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مغربی ممالک کی توقعات پر پورا اترئے۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مذاکرات کامیابی کی صورت میں ایران کے خلاف عائد سخت ترین پابندیوں میں کمی کی جا سکتی ہے۔

ان مذاکرات کا گزشتہ دور جنوری سنہ دو ہزار گیارہ میں ہوا تھا تاہم کسی بھی جانب سے اتفاق رائے نہ پیدا ہونے کی وجہ سے مذاکرات روک دیے گئے تھے۔

اسرائیل جوہری ہتھیاروں سے آراستہ ایران کو اپنی سالمیت کے لیے خطرہ مانتا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ سفارتی حل کا وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ادھر امریکی صدر بارک اوباما نے جنگ کے بارے میں احتیاط برتنے کی تنبیہ دی ہے تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ عالمی برادری کے لیے سارے ممکنہ راستے ک